کل ہند جماعت رضائے مصطفی بریلی کے زریں کارنامے
اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے جماعتی نظم کے لئے اپنے احباب کے مشوروں سے کل ہند جماعت رضا ئے مصطفی کی بنیاد ١٣٣٩ھ/١٩٢٠ء میں ڈالی ۔
جماعت رضائے مصطفی بریلی کے اغراض و مقاصد حسب ذیل تھے۔
الف: پیارے مصطفی کی عزت وعظمت کا تحفظ
ب: بد مذہبوں کی چیرہ دستیوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا۔
ج: متحدہ قومیت کا نعرہ بلند کرنے والے''فرقہ گاندھویہ''کا تحریری و تقریری رد کرنا۔
د: آریہ اور عیسائیوں کے اعتراضات کے تحریری و تقریری جوابات دینا۔
ہ: فاضل بریلوی امام احمد رضا اور دیگر علمائے اہل سنت کی تصانیف کی اشاعت۔
غیر اسلامی نظریہ ''متحدہ قومیت''کے ہیجانی دور میں اسلامی تشخص کے امتیاز و رحفظ ، فتنہ ارتداد کے انسداد اور عوام میں راسخ الاعتقاد ی پیدا کرنے میں جماعت رضائے مصطفی نے مثالی اور مؤثر کام کیا ۔ حجۃ الاسلام اور حضرت مفتی اعظم کی سر پرستی ، اور نگرانی میں جماعت رضائے مصطفی کے پلیٹ فارم سے و فود تیار کئے گئے۔۔۔١٣٤١ھ/١٩٢٣ء میں متعصب ہندؤں نے سادہ لوح مسلمانوں کو (معاذاللہ )مرتد بنانے کی مہم شروع کی، جس کو ''شدھی سنگٹھن''کا نام دیا گیا۔ علماء اہل سنت نے اس ناپاک تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، فتئہ ارتداد کا انسداد کرنے والے علماء میں حضرت مفتی اعظم کا اسم گرامی سر فہرست ہے ۔ اسی دوران حضرت مفتی اعظم نے پانچ لاکھ ہندؤں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔
ابتدء جماعت رضائے مصطفی کی حیثیت ایک مقامی جمیعت کی تھی۔ اس جمعیت کے دو بڑے شعبے تھے۔(علمی)۔۔۔(عملی)
اس جمیعت نے دونوں پہلوؤں پر تاریخ ساز کر دار سر انجام دیا ۔ رفتہ رفتہ اس کی حیثیت مرکزی بن گئی ۔ پورے بر صغیر میں اس کی شاخیں قائم ہوگئیں۔ اب اس کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط میں بھی وسعت کرنا پڑی۔۔اس غرض کے لئے ١٤ جمادی الاولی ١٣٨٣ھ/٣ اکتوبر ١٩٦٣ء کو حضرت مفتی اعظم کی سر پرستی میں برہان ملت مفتی محمد برہان الحق رضوی جبل پوری کے آستانہ عالیہ سلامیہ جبل پور کل ہند جماعت رضائے مصطفی کا اہل اجلاس منعقد ہوا ۔ جس ضروری دفعات کا اضافہ کیا گیا جسکو نشاط ثانیہ کے نام سے یاد کیا گیا۔
اصلاحی آڑ میں مرکزی حکومت ہند نے مسلمانوں کے پرسنل لاء میں ایسی تر میمات کرنے کا اعلان کیا جس سے مسلمانوں کی مذہبی شخصی آزادی شدید متاثر ہوئی ۔۔۔کانگریس کی ہم نوا جمعیت العلماء ہند اور ندوۃ العلماء نے ان غیر اسلامی ترمیمات کی حمایت کی اہل سنت جو ہندوستان کی کل مسلم آبادی میں سب سے بڑی اکثریت ہیں ، کو یہ ترمیمات کسی حال میں قبول نہ تھیں ،چنانچہ ان کی نمائندہ مذہبی اور سیاسی تنظیموں میں کل ہند جماعت رضائے مصطفی اور آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء ہند نے نہایت گونجدار اور مؤثر آواز میں ان غیر اسلامی ترمیمات کی مخالفت کی۔عرس رضوی کے موقع پر ٢٦ صفر ١٣٨٣ھ/١٨ جولائی ١٩٩٦ء کو حضرت مفتی اعظم قدس سرہ کی سربراہی میں کل ہند جماعت رضائے مصطفی نے ان ترمیمات کے خلاف ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی بعد میں مفتی اعظم قدس سرہ کی سربراہی میں ہونے والے آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کانپور کے اجلاس میں ان ترمیمات کے خلاف مؤث آواز اٹھائی ١٣٤٣ھ/١٩٢٥ء میں منعقد ہونے والی آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس کا انتظام و انصرام جماعت رضائے مصطفی اور جماعت انصار الاسلام بریلی جمعیت اشرفی کچھوچھہ کے رضا کاروں نے نہایت سلیقہ سے کیا ۔ جماعت رضا ئے مصطفی بریلی کا خیمہ عظیم شوکت رکھتا تھا ۔ حضرت مفتی اعظم قدس سرہ کی اس ملکوتی نظام کی ''ہر ایک نے تعریف کی۔
ہندوستان میں فتنہ ارتداد کے زمانہ میں حرمین طیبین پر جب نجدی تسلط ہو ا نجدی نے حرمین شریفن میں جو مظالم ڈھائے ،وہ تاریخ کا ایک دردناک باب ہے۔ ہندستان سے ایک وفد اس غرض سے ترتیب دیا گیا کہ وہ نجدیوں کو مظالم سے بعض رکھے ، اس وفد کی تیاری میں حضور مفتی اعظم نے نمایا حصہ لیا۔ اس سلسلہ کی ایک خبر ملاحظہ ہو :
فتنہ نجد اور جماعت رضائے مصطفی بریلی
عین اس وقت جبکہ ہندوستان خود میدان جہاد بنا ہوا ہے اور آریہ ، وہابیہ ہند کی شورشوں نے مجاہدین اسلام کو عدیم الفرصت کر رکھا ہے ۔ مسلمانان ہند کی واحد نمائند ہ اور خالص مذہبی جماعت یعنی جماعت رضائے مصطفی نے تر تیب وفد کے لئے تیاری ظاہر کی اور بطل سنت اور شیر اسلام مفتی اعظم ہند نے اس کام (ابن سعود کے پاس وفد بھیجنے)کے لئے جیب خاص سے پانچ سو روپہ کی گراں قدر رقم جماعت رضائے مصطفی کو عطافرمائی ہے۔
١٩٢٧ء میں ابن سعود کی ظالم حکومت کی وجہ سے سات ہزار زائرین حج بیت اللہ کا اتلاف جان ہو ا۔ ایسی صورت حریمین شریفین میں کبھی بھی نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔جماعت رضائے مصطفی نے ٢٤ جولائی ١٩٢٧ء کو احتجاجی جسلہ خاص کا اہتمام کیا ، جس میں ہندوستان کے چوٹی کے علماء نے شرکت کی اور حسب ذیل تجویزیں پاس ہوئیں ۔
اول: اس سال مناسک حج کے موقع پر حکومت ابن سعود نجدی نے باوجود انواع و اقسام محصول لگا کر حاجیوں سے کثیر روپیہ وصول کرنے کے باوجود ان کے لئے آب رسانی کا کوئی معقول انتظام نہیں کیا ۔ بایں وجہ سات ہزار غریب الوطن حاجیوں کی عزیز ترین جانیں منی و عرفات کے درمیان شدت پیاس سے بیچین ،تڑپ تڑپ کر نشان اجل ہوگئیں ، اس حادثہ جاں کاہ کی تمام و کمال ذمہ داری حکومت سعود پر عائد ہوتی ہے۔
دوم: یا وجود یکہ جماعت رضائے مصطفی اس سال مسلمانوں کو شرعی وصول کے ماتحت التواء حج کا مشورہ دیا تھا ۔۔۔افسوس کے مسلمانوں نے اس سے غفلت برتتے ہوئے شوق زیارت کے جذبات میں عزم سفر کردیا ، نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ امسال ''وقوف عرفات''بجائے نو ذی الحجہ کے آٹھ ذی الحجہ کو بحکم ابن سعود کیا گیا ۔ ۔۔ اس کی تصدیق واپس آئے ہوئے حجاج اور اردو اخبار سے ہوتی ہے۔
جمعہ مبارکہ کو ٢٩ ذی الحجہ کا ہونا ٢٩ کی رویت سے مستحق تھا، ایسی صورت میں حج کسی طرح نہو ا ۔ جو مسلمان کہ اپنا فریضہ ادا کرنے کی غرض سے حاضر بیت اللہ ہوئے تھے۔ان کا فریضہ ادا نہ ہوا ، فرہ فرض ان پر بدستور قائم رہا۔ اس کا سارا وبال حکومت ابن سعود پر رہا۔ اور اس میں صریح نا فرمانی کی گئی ۔احکام خدا اور رسول
کی مسلمانوں کو ان واقعات سے آگاہ ہونا چاہئے۔
١٩٢٩ء میں حکومت ہند نے شرعی امور میں مداخلت کی ، اور شریعت اسلامیہ میں کسی کی بھی مداخلت ایک غیور مسلمان بر
داشت نہیں کر سکتاہے ، اس وقت جماعت رضائے مصطفی کی شاخیں پورے ہندستان میں پھیل چکی تھیں ، حضرت مفتی اعظم کی بہدایت پر بریلی شریف میں ایک مرکزی جلسہ ہوا ۔ جس میں حکومت کی شرعی امور میں مداخلت پر پرزور صدائے احتجاج بلند کی گئی ۔ جلسہ کا انعقاد ٢٠ دسمبر ١٩٢٩ء بعد نماز مغرب زیر صدارت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا بریلوی ہوا ۔۔۔۔جس میں شرع مطہر کی پابندی پر مقرر یں نے تقریریں کیں ،اور ان لوگوں سے اظہار بیزاری کیا۔ جو شریعت کی پابندی کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں ۔ اس کے بعد اصل مقصد کی طرف توجہ کی گئی ۔ یعنی ''شاردہ بل''کے متعلق مولانا ابو المعانی محمد ابرارحسن حامدی تلہری مدیر ماہنامہ یادگار رضا بریلی کا ایک ریزو یشن بایں الفاظ پیش ہوا ۔
یہ جلسہ حکومت ہند کو توجہ دلا تا ہے کہ وہ مسلئہ ازدواج میں تقید عمر سے باز رہے۔ اور وہ اس وعدہ کو یاد کرے جو کسی مذہب میں مداخلت نہ کرنے کے متعلق کر چکی ہے ۔ نکاح یا زفاف کے لئے قانونا کوئی مقرر کرنے کا اسے کسی طرح کوئی حق ہے؟ ۔۔۔۔ایسے قوانین ضرور ہماری مذہبی و دینی ازادی سلب کرنے والے ہےں۔ مسلمان ایسے قوانین کو جابرانہ ، اور قانون شرع میں ترمیم یقین کر رہے ہیں ۔ اوراسے دیندار مسلمانوں کی انتہائی دل آزاری ہورہی ہے ، آج حکومت کوان امورمیں جو من وجہ عبادت ہے ابھارا جا رہا ہے ، اگر مسلمان اس پرخاموش رہے ، اور انہون نے ٹھنڈے دل سے تسلیم کر لیا اس پر جیسی بیچینی چاہئے اس کا اظہار نہ کیا تو کل حکومت ایسے امور کی طرف قانون سازی کی طرف متوجہ کی جائیگی ، جو سراسر عبادت ہیں ۔ کس قدر ستم ہے کہ جو قانو ن ہندو چاہتے ہیں اس کا نفاذ تمام کیا جاتا ہے ۔ ہند و مذہب کے خلا ف جو بات نہیں تو کیا ضرور ی ہے کہ وہ اسلام کے خلاف بھی نہ ہو، اسلام نے ہمیں جن بارے میں آزاد کیا ہے ہم اس میں کیوں کوئی قید پسند کرلیں ؟ ۔ویسے ہی ہر قسم کی قیود کیا تھوڑی ہیں ؟ ۔۔۔۔جو روز بروز پابندیاں اختیار کی جائیں۔
کل ہند جماعت رضائے مصطفی نے ہر وہ ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جس سے تبلیغ اسلام ہوتی ہو، اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کے کتب شائع کرنے کا اہتمام کیا، اپنے صرفہ سے کتابیں شائع کرکے قوم و ملت تک مفت تقسیم کرتی ، کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کثیر کتب شائع کرنے پر جماعت مبارکہ مقروض ہوجاتی ۔۔۔جماعت کے صدر دفتر آستانیہ عالیہ قادریہ رضویہ محلہ سوداگران بریلی سے ''ماہنامہ یادگار رضا''کا اجرا ہوا یہ یاد رہے کہ اس سے قبل اعلی حضرت امام احمد رضا کی سر پرستی میں اور مولانا حسنین رضا خاں کی ادارت میں ''ماہنامہ الرضا'' کہ بند ہونے پر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلی کی سرپرستی اور مولانا ابرار حسن تلہری کی ادارت میں''ماہنامہ یادگار رضا''کا اجرا ہوا ۔ ساراخرچہ طباعت جماعت رضائے مصطفی برداشت کرتی تھی ۔ کچھ دنوں بعد حجۃ الاسلام اور مفتی اعظم دونوں شخصیات کے باہم اشتراک و تعاون اور سر پرستی میں شائع ہوتا رہا ''پھر دونوں بزرگ کی سرپرستی میں ایک عرصہ دراز تک کامیابی کے ساتھ نکلتا رہا ۔
جنرل الیکشن میں ووٹ کا مسئلہ
ہندوستان میں مسلمان ہمیشہ سے پریشان کیا جاتا رہا ہے اور الیکشن کے موقع پر تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہیں ، اور ہر پارٹی یہ باور کراتی ہے کہ ہم ہی ہیں مسلمانوں کے اصل محافظ ۔۔۔مگر الیکشن جیت جانے کے بعد کبھی مسلمانوں کی خیریت دوبارہ دریافت نہیں کی جاتی ، اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہر مقام پر مسلمانوں کو زیر کیا جائے ، ان کی عزت و عزمت سے کھلواڑ کیا جائے ، شریعت اسلامیہ میں مداخلت کی جائے ۔وغیرہ وغیرہ۔
یہی وہ تمام وجوہ ہیں جن کی بنیادوںپر کل ہند جماعت رضائے مصطفی بریلی نے ١٩٦٢ء کے جنرل الیکشن میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کیا ۔ اور اس موقع سے فرقہ پرست اور جنونی سیاسی پارٹیوں کو سبق سکھانے کی ٹھان لی ، تاکہ مسلمان مستقبل میں فوائد و ثمرات حاصل کر سکیں ، انھیں ووٹ کا جائز حق مل سکے ۔ یہ انقلابی اقدام کل ہند جماعت رضائے مصطفی کے بھوج(گجرات)کے منعقد عظیم الشان اجلاس میں دو سو سے زائد شرکت کرنے والے علماء نے اٹھایا ۔ مقتدر علماء کرام میں مولانا سید محمد محدث کچھوچھوی ، مولانا نور اللہ شاہ حسینی حیدر آبادی، مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء مولانا سید آل مصطفی مارہری، ڈاکٹر عبد المطلب پیر زادہ ، مفتی عبد القدیر بدایونی ، علامہ مشتاق احمد نظامی ، مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمٰن قادری ، مولانا محبوب علی خاں رضوی ممبئی ، نصر اللہ عباسی رضوی، مفتی رضوان الرحمٰن فاروقی اندوری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہ تین روزہ کانفرنس تھی اورتمامی اجلاس کی صدارت کل ہند جماعت رضائے مصطفی کے صدر مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں بریلوی نے فرمائی۔
یہ اجلاس
٢٧/٢٨/٢٩/اپریل ١٩٦٠ء کو بھوج(جو ریاست کچھ کا صدیوں کا دار السلطنت رہاہے اور اپنے جائے وقوع کے اعتبار سے کرانچی بندرگاہ کے نہ صرف مقابل ہے بلکہ بہت قریب بھی ہے مگر اب یہ علاقہ گجرات صوبہ میں آتاہے)میں منعقد ہوا ۔ اسمیں فیصلہ کیا گیا کہ :
ایک ریزویشن کے ذریعہ ہند ستان بھر کے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ آنے والے ١٩٦٢ء کے جنرل الیکشن کے لئے کسی پارٹی یا امید وار کو ووٹ دینے کا وعدہ نہ کریں ۔ بلکہ ہر ایک کو یہ صاف جواب دے دیں کہ وہ اپنے مرکزی جمSاعت رضائے مصطفی کے حکم کے مطابق ووٹ دیں گے ۔
کل ہند جماعت رضائے مصطفی بریلی کا فیصلہ نہایت موزوں تھا۔ چونکہ الیکشن کے وقت مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوجاتاہے ۔ اور پھر وہ اہمیت و وقعت چلی جاتی ہے ۔ مذہبی علماء و قائدین کوچاہئے کہ آج متفقہ طور پرایک پلیٹ فارم سے ایسے ہی فیصلہ کئے جائیں ۔ تاکہ بازیگر پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ کا غلط سودا نہ کر سکیں ، اور اس کا صحیح و جائز استعمال ہو۔
|